EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اب کہاں تک پتھروں کی بندگی کرتا پھروں
دل سے جس دم بھی پکاروں گا خدا مل جائے گا

نفس انبالوی




اب تک تو اس سفر میں فقط تشنگی ملی
سنتے تھے راستے میں سمندر بھی آئے گا

نفس انبالوی




اب ان کی خواب گاہوں میں کوئی آواز مت کرنا
بہت تھک ہار کر فٹ پاتھ پر مزدور سوئے ہیں

نفس انبالوی




اپنے دراز قد پہ بہت ناز تھا جنہیں
وہ پیڑ آندھیوں میں زمیں سے اکھڑ گئے

نفس انبالوی




ہماری راہ سے پتھر اٹھا کر پھینک مت دینا
لگی ہیں ٹھوکریں تب جا کے چلنا سیکھ پائے ہیں

نفس انبالوی




ہماری زندگی جیسے کوئی شب بھر کا جلسہ ہے
سحر ہوتے ہی خوابوں کے گھروندے ٹوٹ جاتے ہیں

نفس انبالوی




ہمیں دنیا فقط کاغذ کا اک ٹکڑا سمجھتی ہے
پتنگوں میں اگر ڈھل جائیں ہم تو آسماں چھو لیں

نفس انبالوی