انکار کر رہا ہوں تو قیمت بلند ہے
بکنے پہ آ گیا تو گرا دیں گے دام لوگ
نفس انبالوی
اس شہر میں خوابوں کی عمارت نہیں بنتی
بہتر ہے کہ تعمیر کا نقشہ ہی بدل لو
نفس انبالوی
جب بھی اس دیوار سے ملتا ہوں رو پڑتا ہوں میں
کچھ نہ کچھ تو ہے یقیناً اس میں پتھر سے الگ
نفس انبالوی
مرنے کو مر بھی جاؤں کوئی مسئلہ نہیں
لیکن یہ طے تو ہو کہ ابھی جی رہا ہوں میں
نفس انبالوی
ملتے ہیں مسکرا کے اگرچہ تمام لوگ
مر مر کے جی رہے ہیں مگر صبح و شام لوگ
نفس انبالوی
مرے خیال کی پرواز بس تمہیں تک تھی
پھر اس کے بعد مجھے کوئی آسماں نہ ملا
نفس انبالوی
نگاہوں کے مناظر بے سبب دھندھلے نہیں پڑتے
ہماری آنکھ میں دریا کوئی ٹھہرا ہوا ہوگا
نفس انبالوی

