ساری گواہیاں تو مرے حق میں آ گئیں
لیکن مرا بیان ہی میرے خلاف تھا
نفس انبالوی
تاریکیاں قبول تھیں مجھ کو تمام عمر
لیکن میں جگنوؤں کی خوشامد نہ کر سکا
نفس انبالوی
تو دریا ہے تو ہوگا ہاں مگر اتنا سمجھ لینا
ترے جیسے کئی دریا مری آنکھوں میں رہتے ہیں
نفس انبالوی
اسے گماں ہے کہ میری اڑان کچھ کم ہے
مجھے یقیں ہے کہ یہ آسمان کچھ کم ہے
نفس انبالوی
اٹھا لایا کتابوں سے وہ اک الفاظ کا جنگل
سنا ہے اب مری خاموشیوں کا ترجمہ ہوگا
نفس انبالوی
وہ بھیڑ میں کھڑا ہے جو پتھر لئے ہوئے
کل تک مرا خدا تھا مجھے اتنا یاد ہے
نفس انبالوی
یہ عشق کے خطوط بھی کتنے عجیب ہیں
آنکھیں وہ پڑھ رہی ہیں جو تحریر بھی نہیں
نفس انبالوی

