EN हिंदी
سلے ہوں لب زبانیں بند تو باتیں نہیں ہوتیں | شیح شیری
sile hon lab zabanen band to baaten nahin hotin

غزل

سلے ہوں لب زبانیں بند تو باتیں نہیں ہوتیں

نفیر سرمدی

;

سلے ہوں لب زبانیں بند تو باتیں نہیں ہوتیں
مخالف راستے ہوں تو ملاقاتیں نہیں ہوتیں

یہ انسانوں پہ انسانوں کی فوقیت عجب شے ہے
رگوں کی دوڑتی سرخی میں تو ذاتیں نہیں ہوتیں

لکھی جاتی ہیں سنگینوں سے آزادی کی تحریریں
کہیں خود پیش آزادی کی سوغاتیں نہیں ہوتیں

جہاں شب خون مارا جا سکے خوابیدہ لوگوں پر
کسی بیدار ملت میں تو وہ راتیں نہیں ہوتیں

گھٹا سے چھینتے ہیں ایستادہ کوہ بارش کو
زمیں پر لیٹے صحراؤں پر برساتیں نہیں ہوتیں

نفیرؔ اس دور خود آگاہ انسانوں کی دنیا میں
کہیں حاوی جواں مردوں پہ آفاتیں نہیں ہوتیں