پیرہن اڑ جائے گا رنگ قبا رہ جائے گا
پھول کے تن پر فقط عکس ہوا رہ جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ چاروں در مقفل ہو چکے
کیا خبر تھی ایک دروازہ کھلا رہ جائے گا
کرچیاں ہو جائیں گی آنکھیں بھی خوابوں کی طرح
آئینوں میں نقش سا تصویر کا رہ جائے گا
بات لب پر آ گئی تو کون روکے گا اسے
اور تیرا ہاتھ ہونٹوں سے لگا رہ جائے گا
سوچ لینا ان سنی باتیں سنیں گے ایک دن
دیکھ لینا ہر فسانہ ان کہا رہ جائے گا
اے گنہ گاروں کے دشمن اے نکو کاروں کے یار
کون جانے کیا مٹے گا اور کیا رہ جائے گا
ہم بچھڑ جائیں گے شاخ عمر سے گر کر نجیبؔ
اک تنے پر نام دونوں کا لکھا رہ جائے گا

غزل
پیرہن اڑ جائے گا رنگ قبا رہ جائے گا
نجیب احمد