EN हिंदी
جو دشت میں ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے | شیح شیری
jo dasht mein mila tha mujhe itna yaad hai

غزل

جو دشت میں ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے

نفس انبالوی

;

جو دشت میں ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے
میرا ہی نقش پا تھا مجھے اتنا یاد ہے

پھر کیا ہوا کبھی مری بربادیوں سے پوچھ
تیری طرف چلا تھا مجھے اتنا یاد ہے

اتنا لہو لہو تو نہیں تھا بدن مرا
ہاں زخم اک ہرا تھا مجھے اتنا یاد ہے

وہ بھیڑ میں کھڑا ہے جو پتھر لئے ہوئے
کل تک مرا خدا تھا مجھے اتنا یاد ہے

میں جیسے مدتوں سے اسی رہ گزر میں ہوں
پل بھر کا فاصلا تھا مجھے اتنا یاد ہے

چہرہ کسی کا اب بھی تصور میں ہے نفسؔ
اک اجنبی ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے