چھوڑو اب اس چراغ کا چرچا بہت ہوا
اپنا تو سب کے ہاتھوں خسارہ بہت ہوا
کیا بے سبب کسی سے کہیں اوبتے ہیں لوگ
باور کرو کہ ذکر تمہارا بہت ہوا
بیٹھے رہے کہ تیز بہت تھی ہوائے شوق
دشت ہوس کا گرچہ ارادہ بہت ہوا
آخر کو اٹھ گئے تھے جو اک بات کہہ کے ہم
سنتے ہیں پھر اسی کا اعادہ بہت ہوا
ملنے دیا نہ اس سے ہمیں جس خیال نے
سوچا تو اس خیال سے صدمہ بہت ہوا
اچھا تو اب سفر ہو کسی اور سمت میں
یہ روز و شب کا جاگنا سونا بہت ہوا
غزل
چھوڑو اب اس چراغ کا چرچا بہت ہوا
احمد محفوظ