EN हिंदी
رقص شرر کیا اب کے وحشت ناک ہوا | شیح شیری
raqs-e-sharar kya ab ke wahshat-nak hua

غزل

رقص شرر کیا اب کے وحشت ناک ہوا

احمد محفوظ

;

رقص شرر کیا اب کے وحشت ناک ہوا
جلتے جلتے سب کچھ جل کر خاک ہوا

سب کو اپنی اپنی پڑی تھی پوچھتے کیا
کون وہاں بچ نکلا کون ہلاک ہوا

موسم گل سے فصل خزاں کی دوری کیا
آنکھ جھپکتے سارا قصہ پاک ہوا

کن رنگوں اس صورت کی تعبیر کروں
خواب ندی میں اک شعلہ پیراک ہوا

ناداں کو آئینہ ہی عیار کرے
خود میں ہو کر وہ کیسا چالاک ہوا

تاریکی کے رات عذاب ہی کیا کم تھے
دن نکلا تو سورج بھی سفاک ہوا

دل کی آنکھیں کھول کے راہ چلو محفوظؔ
دیکھو کیا کیا عالم زیر خاک ہوا