EN हिंदी
یوں ہی کب تک اوپر اوپر دیکھا جائے | شیح شیری
yun hi kab tak upar upar dekha jae

غزل

یوں ہی کب تک اوپر اوپر دیکھا جائے

احمد محفوظ

;

یوں ہی کب تک اوپر اوپر دیکھا جائے
گہرائی میں کیوں نہ اتر کر دیکھا جائے

تیز ہوائیں یاد دلانے آئی ہیں
نام ترا پھر ریت پہ لکھ کر دیکھا جائے

شور حریم ذات میں آخر اٹھا کیوں
اندر دیکھا جائے کہ باہر دیکھا جائے

گاتی موجیں شام ڈھلے سو جائیں گی
بعد میں ساحل پہلے سمندر دیکھا جائے

سارے پتھر میری ہی جانب اٹھتے ہیں
ان سے کب محفوظؔ مرا سر دیکھا جائے