EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

پہلے رگ رگ سے مری خون نچوڑا اس نے
اب یہ کہتا ہے کہ رنگت ہی مری پیلی ہے

مظفر وارثی




سانس لیتا ہوں کہ پت جھڑ سی لگی ہے مجھ میں
وقت سے ٹوٹ رہے ہیں مرے بندھن جیسے

مظفر وارثی




وعدہ معاوضے کا نہ کرتا اگر خدا
خیرات بھی سخی سے نہ ملتی فقیر کو

مظفر وارثی




زخم تنہائی میں خوشبوئے حنا کس کی تھی
سایہ دیوار پہ میرا تھا صدا کس کی تھی

مظفر وارثی




زندگی تجھ سے ہر اک سانس پہ سمجھوتا کروں
شوق جینے کا ہے مجھ کو مگر اتنا بھی نہیں

مظفر وارثی




بہت قریب ہے مضطرؔ وہ زندگی کا نظام
نظر نہ آئے گا جب کوئی بسمل و قاتل

مضطر حیدری




ہائے بے چہرگی یہ انساں کی
ہائے یہ آدمی نما کیا ہے

مضطر حیدری