ناکامی قسمت کا گلہ چھوڑ دیا ہے
تدبیر سے تقدیر کا رخ موڑ دیا ہے
وہ جرم بھی اک عظمت کردار ہے جس نے
ٹوٹا ہوا اک رشتۂ دل جوڑ دیا ہے
دل ڈوب چلا آخر شب خشک ہیں آنکھیں
آ جا کہ ستاروں نے بھی دم توڑ دیا ہے
بہتے ہوئے دیکھے ہیں ادھر وقت کے دھارے
رخ ہم نے ارادوں کا جدھر موڑ دیا ہے
فن کار کا احساس ضیابار تھا جس میں
حالات نے وہ شیش محل توڑ دیا ہے
انداز غزل آپ کا کیا خوب ہے رزمیؔ
محسوس یہ ہوتا ہے قلم توڑ دیا ہے
غزل
ناکامی قسمت کا گلہ چھوڑ دیا ہے
مظفر رزمی