EN हिंदी
خشک آنکھوں سے نکل کر آسماں پر پھیل جا | شیح شیری
KHushk aankhon se nikal kar aasman par phail ja

غزل

خشک آنکھوں سے نکل کر آسماں پر پھیل جا

مظفر حنفی

;

خشک آنکھوں سے نکل کر آسماں پر پھیل جا
اے غبار آرزو تا حد منظر پھیل جا

موتیوں کی آبروئیں لوٹنے والے بہت
سیپ کے قیدی سمندر در سمندر پھیل جا

یوں پلک پر جگمگانا دو گھڑی کا عیش ہے
روشنی بن کر مرے اندر ہی اندر پھیل جا

آ مرے سینے سے لگ جا تو اگر سیلاب ہے
اور خوشبو ہے تو جا بستی میں گھر گھر پھیل جا

نقش پا پامال راہوں پر لگا دے گا تجھے
راستے میں گرد کی مانند اڑ کر پھیل جا