خشک آنکھوں سے نکل کر آسماں پر پھیل جا
اے غبار آرزو تا حد منظر پھیل جا
موتیوں کی آبروئیں لوٹنے والے بہت
سیپ کے قیدی سمندر در سمندر پھیل جا
یوں پلک پر جگمگانا دو گھڑی کا عیش ہے
روشنی بن کر مرے اندر ہی اندر پھیل جا
آ مرے سینے سے لگ جا تو اگر سیلاب ہے
اور خوشبو ہے تو جا بستی میں گھر گھر پھیل جا
نقش پا پامال راہوں پر لگا دے گا تجھے
راستے میں گرد کی مانند اڑ کر پھیل جا
غزل
خشک آنکھوں سے نکل کر آسماں پر پھیل جا
مظفر حنفی