وجود غیب کا عرفان ٹوٹ جاتا ہے
صریر خامہ سے وجدان ٹوٹ جاتا ہے
جو ہو سکے تو کرو عام لاابالی پن
خودی کے بوجھ سے انسان ٹوٹ جاتا ہے
سنائیے وہ لطیفہ ہر ایک جام کے ساتھ
کہ ایک بوند سے ایمان ٹوٹ جاتا ہے
سجانے لگتا ہوں جب کچھ حسین یادوں کے پھول
مرے خیال کا گلدان ٹوٹ جاتا ہے
تو لازمی بھی نہیں تولنا سمندر کا
اگر حباب کا میزان ٹوٹ جاتا ہے
ہوا جہاں بھی ترے وحشیوں کا دامن چاک
وہیں بہار کا احسان ٹوٹ جاتا ہے
یہ دور وہ ہے مظفرؔ گناہ زید کرے
بکر کی ذات پہ بہتان ٹوٹ جاتا ہے
غزل
وجود غیب کا عرفان ٹوٹ جاتا ہے
مظفر حنفی