احسان نہیں خواب میں آئے جو مرے پاس
چوری کی ملاقات ملاقات نہیں ہے
منیرؔ شکوہ آبادی
فرض ہے دریا دلوں پر خاکساروں کی مدد
فرش صحرا کے لئے لازم ہوا سیلاب کا
منیرؔ شکوہ آبادی
گالیاں زخم کہن کو دیکھ کر دیتی ہو کیوں
باسی کھانے میں ملاتے ہو طعام تازہ آج
منیرؔ شکوہ آبادی
گرمی میں تیرے کوچہ نشینوں کے واسطے
پنکھے ہیں قدسیوں کے پروں کے بہشت میں
منیرؔ شکوہ آبادی
گرمیٔ حسن کی مدحت کا صلا لیتے ہیں
مشعلیں آپ کے سائے سے جلا لیتے ہیں
منیرؔ شکوہ آبادی
ہاتھ ملواتے ہو ترسائے گلوری کے لئے
کف افسوس نہ مل جائے کہیں پاؤں میں
منیرؔ شکوہ آبادی
ہمیشہ مے کدہ میں خوش قدوں کا مجمع ہے
ہزاروں سرو لگے ہیں کنار جوئے شراب
منیرؔ شکوہ آبادی

