ہو گیا ہوں میں نقاب روئے روشن پر فقیر
چاہئے تہ بند مجھ کو چادر مہتاب کا
منیرؔ شکوہ آبادی
ہو گیا معمور عالم جب کیا دربار عام
تخلیہ چاہا تو دنیا صاف خالی ہو گئی
منیرؔ شکوہ آبادی
حضور دختر رز ہاتھ پاؤں کانپتے ہیں
تمام مستوں کو رعشہ ہے روبروئے شراب
منیرؔ شکوہ آبادی
ان روزوں لطف حسن ہے آؤ تو بات ہے
دو دن کی چاندنی ہے پھر اندھیاری رات ہے
منیرؔ شکوہ آبادی
جان دیتا ہوں مگر آتی نہیں
موت کو بھی ناز معشوقانہ ہے
منیرؔ شکوہ آبادی
جان کر اس بت کا گھر کعبہ کو سجدہ کر لیا
اے برہمن مجھ کو بیت اللہ نے دھوکا دیا
منیرؔ شکوہ آبادی
جاتی ہے دور بات نکل کر زبان سے
پھرتا نہیں وہ تیر جو نکلا کمان سے
منیرؔ شکوہ آبادی

