جب بڑھ گئی عمر گھٹ گئی زیست
جو حد سے زیادہ ہو وہ کم ہے
منیرؔ شکوہ آبادی
جب کبھی مسکی کٹوری کیا صدا پیدا ہوئی
کرتی ہے انگیا کی چڑیا چہچہانے کی ہوس
منیرؔ شکوہ آبادی
جھوٹی باتیں مجھے یاد آئیں جو اس کی شب ہجر
صبح کاذب کو میں پیشانیٔ قاتل سمجھا
منیرؔ شکوہ آبادی
جھوٹی باتوں کی تجلی نظر آئے ایسے
صبح کاذب کی سفیدی پھرے دالانوں میں
منیرؔ شکوہ آبادی
جس روز میں گنتا ہوں ترے آنے کی گھڑیاں
سورج کو بنا دیتی ہے سونے کی گھڑی بات
منیرؔ شکوہ آبادی
کعبے سے مجھ کو لائی سواد کنشت میں
اصلاح دی بتوں نے خط سر نوشت میں
منیرؔ شکوہ آبادی
کب پان رقیبوں کو عنایت نہیں ہوتے
کس روز مرے قتل کا بیڑا نہیں اٹھتا
منیرؔ شکوہ آبادی

