اے بت یہ ہے نماز کہ ہے گھات قتل کی
نیت ادا کی ہے کہ اشارے قضا کے ہیں
منیرؔ شکوہ آبادی
اے رشک ماہ رات کو مٹھی نہ کھولنا
مہدی کا چور ہاتھ سے جائے نہ چھوٹ کے
منیرؔ شکوہ آبادی
اشعار میرے سن کے وہ خاموش ہو گیا
غنچہ برنگ گل ہمہ تن گوش ہو گیا
منیرؔ شکوہ آبادی
برہمن کعبہ میں آیا شیخ پہونچا دیر میں
لوگ بے وحدت ہوئے ہیں تیری کثرت دیکھ کر
منیرؔ شکوہ آبادی
بس کہ ہے پیش نظر پست و بلند عالم
ٹھوکریں کھا کے مری آنکھوں میں خواب آتا ہے
منیرؔ شکوہ آبادی
بے علم شاعروں کا گلہ کیا ہے اے منیرؔ
ہے اہل علم کو ترا طرز بیاں پسند
منیرؔ شکوہ آبادی
بے تکلف آ گیا وہ مہ دم فکر سخن
رہ گیا پاس ادب سے قافیہ آداب کا
منیرؔ شکوہ آبادی

