کبھی پیام نہ بھیجا بتوں نے میرے پاس
خدا ہیں کیسے کہ پیغامبر نہیں رکھتے
منیرؔ شکوہ آبادی
کہتے ہیں سب دیکھ کر بیتاب میرا عضو عضو
آدمی اب تک نہیں دیکھا کہیں سیماب کا
منیرؔ شکوہ آبادی
کرتا رہا لغات کی تحقیق عمر بھر
اعمال نامہ نسخۂ فرہنگ ہو گیا
منیرؔ شکوہ آبادی
کرتے ہیں مسجدوں میں شکوۂ مستاں زاہد
یعنی آنکھوں کا بھوؤں سے یہ گلا کرتے ہیں
منیرؔ شکوہ آبادی
خاکساروں میں نہیں ایسی کسی کی توقیر
قد آدم مری تعظیم کو سایا اٹھا
منیرؔ شکوہ آبادی
خال و خط سے عیب اس کے روئے اقدس کو نہیں
حسن ہے مصحف میں ہونا نقطۂ اعراب کا
منیرؔ شکوہ آبادی
کھاتے ہیں انگور پیتے ہیں شراب
بس یہی مستوں کا آب و دانہ ہے
منیرؔ شکوہ آبادی

