EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

دم بھر رہے حباب نمط کائنات میں
اس زندگی میں نام نہیں ماہ و سال کا

منیرؔ  شکوہ آبادی




دس بیس ہر مہینے میں ابرو نظر پڑے
اس سال سارے چاند ہوئے تیس تیس کے

منیرؔ  شکوہ آبادی




دشت وحشت میں نہیں ملتا ہے سایہ کانپتا
میں ہوں سودائی مرا ہم زاد سودائی نہیں

منیرؔ  شکوہ آبادی




دولت کے دانت کند کئے میرے حرص نے
کھٹا تمام شربت دینار کر دیا

منیرؔ  شکوہ آبادی




دیکھا ہے عاشقوں نے برہمن کی آنکھ سے
ہر بت خدا ہے چاہنے والوں کے سامنے

منیرؔ  شکوہ آبادی




دیدار کا مزا نہیں بال اپنے باندھ لو
کچھ مجھ کو سوجھتا نہیں اندھیاری رات ہے

منیرؔ  شکوہ آبادی




دل لے کے پلکیں پھر گئیں زلفوں کی آڑ میں
الٹے پھری یہ فوج سر شام لوٹ کے

منیرؔ  شکوہ آبادی