EN हिंदी
جیتے جی کے آشنا ہیں پھر کسی کا کون ہے | شیح شیری
jite-ji ke aashna hain phir kisi ka kaun hai

غزل

جیتے جی کے آشنا ہیں پھر کسی کا کون ہے

آغا اکبرآبادی

;

جیتے جی کے آشنا ہیں پھر کسی کا کون ہے
نام کے اپنے ہوا کرتے ہیں اپنا کون ہے

جان جاں تیرے سوا رشک مسیحا کون ہے
مار کر ٹھوکر جلا دے مجھ کو ایسا کون ہے

یہ سیہ خیمہ ہے کس کا اس میں لیلیٰ کون ہے
چنبر افلاک کے پردے میں بیٹھا کون ہے

ہم نہ کہتے تھے کہ سودا زلف کا اچھا نہیں
دیکھیے تو اب سر بازار رسوا کون ہے

وہ تو ہے بے نور اور یہ نور سے معمور ہے
چشم کو نرگس کہے گا ایسا اندھا کون ہے

دم بدم ہر بات میں کرتے ہو ٹھنڈی گرمیاں
آپ کی اکھڑی ہوئی باتوں پہ جمتا کون ہے

وادئ وحشت میں بھی ہمراہ ہیں آہ و فغاں
اپنے ہمدم ساتھ ہیں اے جان تنہا کون ہے

خیر ہے اے مہرباں کس نے انہیں سیدھا کیا
آپ کیوں بل کرتے ہیں زلفوں سے الجھا کون ہے

دختر رز سچ بتا تیری نظر کس پر پڑی
ٹٹیوں کی آڑ میں سے کس کو تاکا کون ہے

آج مقتل میں کھڑے کہتے ہیں وہ خنجر بکف
بول اٹھے چاہنے والا ہمارا کون ہے

چار دن جو کچھ تماشا دیکھنا ہے دیکھ لے
سیر کو پھر گلشن دنیا میں آتا کون ہے

باندھ کر تیغ و کفن جاتے ہیں اس قاتل کے پاس
ہم بھی دیکھیں روکنے والا ہمارا کون ہے

کیا تجاہل ہے کہ وہ فرماتے ہیں اغیار سے
میں نہیں پہچانتا مطلق کہ آغاؔ کون ہے