EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

لباس بدلے نہیں ہم نے موسموں کی طرح
کہ زیب تن جو کیا ایک ہی لبادہ کیا

محسن زیدی




سنتے ہیں کہ آباد یہاں تھا کوئی کنبہ
آثار بھی کہتے ہیں یہاں پر کوئی گھر تھا

محسن زیدی




یہ ظلم دیکھیے کہ گھروں میں لگی ہے آگ
اور حکم ہے مکین نکل کر نہ گھر سے آئیں

محسن زیدی




آنکھوں میں شب اتر گئی خوابوں کا سلسلہ رہا
میں خود کو دیکھتا رہا میں خود کو سوچتا رہا

معید رشیدی




اب اس سے پہلے کہ رسوائی اپنے گھر آتی
تمہارے شہر سے ہم با ادب نکل آئے

معید رشیدی




اے عقل نہیں آئیں گے باتوں میں تری ہم
نادان تھے نادان ہیں نادان رہیں گے

معید رشیدی




ایک ہنگامہ شب و روز بپا رہتا ہے
خانۂ دل میں نہاں جیسے خدا رہتا ہے

معید رشیدی