ہر روز نیا حشر سر راہ گزر تھا
اب تک کا سفر ایک قیامت کا سفر تھا
اندازۂ حالات تھا پہلے ہی سے مجھ کو
درپیش جو اب ہے وہ مرے پیش نظر تھا
سنتے ہیں کہ آباد یہاں تھا کوئی کنبہ
آثار بھی کہتے ہیں یہاں پر کوئی گھر تھا
طے ہم نے کیا سارا سفر یک و تنہا
جز گرد سفر کوئی نہ ہم راہ سفر تھا
صد حیف کئی لوگ گئے جاں سے مرے ساتھ
قاتل کو تو مطلوب فقط میرا ہی سر تھا
میری ہی طرح جاں سے گزر کر چلے آتے
کچھ اس سے زیادہ تو نہ رستے میں خطر تھا
رہتا تھا کبھی میری نگاہوں میں شب و روز
اک وقت تھا جب وہ مرا محبوب نظر تھا
کیا وہ کوئی جھونکا تھا نسیم سحری کا
یا رہ گزر خواب پہ خوشبو کا سفر تھا
ہم جا کے کہاں بادیہ پیما ہوئے محسنؔ
جس دشت میں سبزہ نہ کہیں کوئی شجر تھا
غزل
ہر روز نیا حشر سر راہ گزر تھا
محسن زیدی