ہمیں ہیں سوز ہمیں ساز ہیں ہمیں نغمہ
ذرا سنبھل کے سر بزم چھیڑنا ہم کو
معین احسن جذبی
ہزار بار کیا عزم ترک نظارہ
ہزار بار مگر دیکھنا پڑا مجھ کو
معین احسن جذبی
اک پیاس بھرے دل پر نہ ہوئی تاثیر تمہاری نظروں کی
اک موم کے بے بس ٹکڑے پر یہ نازک خنجر ٹوٹ گئے
معین احسن جذبی
جب کبھی کسی گل پر اک ذرا نکھار آیا
کم نگاہ یہ سمجھے موسم بہار آیا
معین احسن جذبی
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
معین احسن جذبی
جب تجھ کو تمنا میری تھی تب مجھ کو تمنا تیری تھی
اب تجھ کو تمنا غیر کی ہے تو تیری تمنا کون کرے
معین احسن جذبی
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
معین احسن جذبی

