EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخ رو کر کے

محسن نقوی




یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسنؔ
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تری آنکھیں

محسن نقوی




ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی

محسن نقوی




بند آنکھیں جب کھلیں تو روشنی پہچان لی
بے خبر ہم ہوں تو ہوں پر بے بصر اتنے نہ تھے

محسن شیخ




ہم اسے انفس و آفاق سے رکھتے ہیں پرے
شام کوئی جو ترے غم سے تہی جاتی ہے

محسن شکیل




اگر چمن کا کوئی در کھلا بھی میرے لیے
سموم بن گئی باد صبا بھی میرے لیے

محسن زیدی




بچھڑنے والوں میں ہم جس سے آشنا کم تھے
نہ جانے دل نے اسے یاد کیوں زیادہ کیا

محسن زیدی