EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ منصب بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں

محمد علی خاں رشکی




دور رہتی ہیں سدا ان سے بلائیں ساحل
اپنے ماں باپ کی جو روز دعا لیتے ہیں

محمد علی ساحل




ہم ہیں تہذیب کے علمبردار
ہم کو اردو زبان آتی ہے

محمد علی ساحل




جو اثاثہ زندگی کا اس نے جوڑا عمر بھر
موت کا سیلاب جب آیا تو سب کچھ بہہ گیا

محمد علی ساحل




خامشی تیری مری جان لیے لیتی ہے
اپنی تصویر سے باہر تجھے آنا ہوگا

محمد علی ساحل




کوئی کرتا ہے جب ہندوستان کی بات اے ساحلؔ
مجھے اقبال کا قومی ترانہ یاد آتا ہے

محمد علی ساحل




مرتے دم تک سب مجھ کو انسان کہیں
ایسا ہی کردار مرا ہو یا اللہ

محمد علی ساحل