EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

نہ انتظار کرو کل کا آج درج کرو
خموشی توڑ دو اور احتجاج درج کرو

مرزا اطہر ضیا




تمام شہر میں بکھرا پڑا ہے میرا وجود
کوئی بتائے بھلا کس طرح چنوں خود کو

مرزا اطہر ضیا




تیری دہلیز پہ اقرار کی امید لیے
پھر کھڑے ہیں ترے انکار کے مارے ہوئے لوگ

مرزا اطہر ضیا




تو نے اے وقت پلٹ کر بھی کبھی دیکھا ہے
کیسے ہیں سب تری رفتار کے مارے ہوئے لوگ

مرزا اطہر ضیا




شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے

ؔمرزا عظیم بیگ عظیم




اے مصور شتاب ہو کہ ابھی
اس کا نقشہ دھیان میں کچھ ہے

مرزا اظفری




اظفریؔ غنچۂ دل بند اور آئی ہے بہار
سیر گل کو کہ یہ شاید بہ تکلف کھل لے

مرزا اظفری