میں اپنے جسم کی دیوار میں چنوں خود کو
پھر اپنے آپ سے باتیں کروں سنوں خود کو
تمام شہر میں بکھرا پڑا ہے میرا وجود
کوئی بتائے بھلا کس طرح چنوں خود کو
نکل پڑا ہوں میں ہم زاد ڈھونڈنے اپنا
لگا کے بیٹھا ہوا ہوں عجب جنوں خود کو
مرے وجود کے سب تانے بانے الجھے ہیں
کدھر کدھر سے میں سلجھاؤں اور بنوں خود کو
وہ چیز کیا ہے کہ جس کی تلاش میں اطہرؔ
ادھیڑ ادھیڑ کے اپنا بدن دھنوں خود کو
غزل
میں اپنے جسم کی دیوار میں چنوں خود کو
مرزا اطہر ضیا