بے وفا تم ہوئے کی ترک محبت میں نے
عشق بازی مرا شیوہ تھا مری ذات نہ تھی
مرزا آسمان جاہ انجم
دکھاتا ہے مرا دل بے الف رے
ہوا ہوں رنج سے میں ز الف رے
مرزا آسمان جاہ انجم
ہاتھ ٹوٹیں جو چھوا بھی ہو ہاتھ
دکھ گئی ان کی کلائی کیوں کر
مرزا آسمان جاہ انجم
ہم اپنی روح کو قاصد بنا کے بھیجیں گے
ترا گزر جو وہاں نامہ بر نہیں نہ سہی
مرزا آسمان جاہ انجم
ہم بھی اب اپنی محبت سے اٹھاتے ہیں ہاتھ
چاہنے والا اگر ہم کو دکھا اور کوئی
مرزا آسمان جاہ انجم
ہم لب گور ہو گئے ظالم
تو لب بام کیوں نہیں آتا
مرزا آسمان جاہ انجم
جا لگے گی کشتئ دل ساحل امید پر
دیدۂ تر سے اگر دریا رواں ہو جائے گا
مرزا آسمان جاہ انجم

