دکھاتا ہے مرا دل بے الف رے
ہوا ہوں رنج سے میں زے الف رے
اڑائیں دھجیاں بھی تو نے لیکن
چھٹا دامن نہ تجھ سے خے الف رے
گریباں گیر ہے یہ جو وحشت
نہ رکھا نام کو بھی تے الف رے
خوشی سے کاٹ لے قاتل مرا سر
ہوا ہے اب تو مجھ کو بے الف رے
نگاہوں کو کہوں کیوں کر نہ برچھی
کہ سینے سے ہوئی ہیں پے الف رے
الٰہی زے الف رے تو ہوا ہوں
پہ چشم غیر میں ہوں خے الف رے
لیا ہے دل تمہارا اس نے انجمؔ
کرے آنکھیں وہ کیوں کر چے الف رے
تصور گل رخوں کا آسماںؔ کیوں
گلے کا ہو گیا ہے ہے الف رے
غزل
دکھاتا ہے مرا دل بے الف رے
مرزا آسمان جاہ انجم