EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

میرؔ صاحب تم فرشتہ ہو تو ہو
آدمی ہونا تو مشکل ہے میاں

میر تقی میر




میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

میر تقی میر




آج کیا جانے وہ کیوں آرام جاں آیا نہیں
حرف رنجش کل تو کوئی درمیاں آیا نہیں

مرزا علی لطف




بیٹھ کر مسجد میں رندوں سے نہ اتنا بگڑیے
شیخ جی آتے ہو میخانے کے بھی اکثر طرف

مرزا علی لطف




بیگانوں نے کبھی نہ وہ کانوں سنائی بات
افسوس آشنا نے جو آنکھوں دکھائی بات

مرزا علی لطف




دیر تک ضبط سخن کل اس میں اور ہم میں رہا
بول اٹھے گھبرا کے جب آخر کے تئیں دم رک گئے

مرزا علی لطف




ہم اور فرہاد بحر عشق میں باہم ہی کودے تھے
جو اس کے سر سے گزرا آب میری تا کمر آیا

مرزا علی لطف