EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہوا آوارہ ہندوستاں سے لطفؔ آگے خدا جانے
دکن کے سانولوں نے مارا یا انگلن کے گوروں نے

مرزا علی لطف




ادھر سے جتنی یگانگت کی ادھر سے اتنی ہوئی جدائی
بڑھائی تھوڑی سی جب ادھر سے بہت سی تم نے ادھر گھٹائی

مرزا علی لطف




کھل گیا اب یہ کہ وصل اس کا خیال خام ہے
آج امیدوں کا دل ہی دل میں قتل عام ہے

مرزا علی لطف




کس کو بہلاتے ہو شیشہ کا گلو ٹوٹ گیا
خم مرے منہ سے لگا دو جو سبو ٹوٹ گیا

مرزا علی لطف




کیا سبب بتلائیں ہنستے ہنستے باہم رک گئے
خود بخود کچھ وہ کھینچے ایدھر ادھر ہم رک گئے

مرزا علی لطف




نہ کر اے لطفؔ ناحق رہروان دیر سے حجت
یہی رستہ تو کھا کر پھیر ہے کعبہ کو جا نکلا

مرزا علی لطف




نہیں وہ ہم کہ کہنے سے ترے ہر بت کے بندے ہوں
کرے پیدا بھی گر ناصح تو اس غارت گر دیں سا

مرزا علی لطف