جن کی حسرت میں دل رسوا نے غم کھائے بہت
سنگ ہم پر ان دریچوں نے ہی برسائے بہت
مہتاب ظفر
زباں زباں پہ شور تھا کہ رات ختم ہو گئی
یہاں سحر کی آس میں حیات ختم ہو گئی
مہتاب ظفر
قفس سے آشیاں تبدیل کرنا بات ہی کیا تھی
ہمیں دیکھو کہ ہم نے بجلیوں سے آشیاں بدلا
محضر لکھنوی
ہائے وہ ہاتھ بھی تلوار ستم کاٹ گئی
جو تھا آندھی میں چراغوں کو جلانے والا
میکش اجمیری
آپ کی میری کہانی ایک ہے
کہئے اب میں کیا سناؤں کیا سنوں
میکش اکبرآبادی
بیٹھے رہے وہ خون تمنا کئے ہوئے
دیکھا کئے انہیں نگہ التجا سے ہم
میکش اکبرآبادی
چراغ کشتہ لے کر ہم تری محفل میں کیا آتے
جو دن تھے زندگی کے وہ تو رستے میں گزار آئے
میکش اکبرآبادی

