EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جن کی حسرت میں دل رسوا نے غم کھائے بہت
سنگ ہم پر ان دریچوں نے ہی برسائے بہت

مہتاب ظفر




زباں زباں پہ شور تھا کہ رات ختم ہو گئی
یہاں سحر کی آس میں حیات ختم ہو گئی

مہتاب ظفر




قفس سے آشیاں تبدیل کرنا بات ہی کیا تھی
ہمیں دیکھو کہ ہم نے بجلیوں سے آشیاں بدلا

محضر لکھنوی




ہائے وہ ہاتھ بھی تلوار ستم کاٹ گئی
جو تھا آندھی میں چراغوں کو جلانے والا

میکش اجمیری




آپ کی میری کہانی ایک ہے
کہئے اب میں کیا سناؤں کیا سنوں

میکش اکبرآبادی




بیٹھے رہے وہ خون تمنا کئے ہوئے
دیکھا کئے انہیں نگہ التجا سے ہم

میکش اکبرآبادی




چراغ کشتہ لے کر ہم تری محفل میں کیا آتے
جو دن تھے زندگی کے وہ تو رستے میں گزار آئے

میکش اکبرآبادی