اپنی خواہش میں جو بس گئے ہیں وہ دیوار و در چھوڑ دیں
دھوپ آنکھوں میں چبھنے لگی ہے تو کیا ہم سفر چھوڑ دیں
دست بردار ہو جائیں فریاد سے اور بغاوت کریں
کیا سوالی ترے قصر انصاف! زنجیر در چھوڑ دیں
جب لعاب دہن اپنا تریاق ہے دست و بازو بھی ہیں
سانپ گلیوں میں لہرا رہے ہیں تو کیا ہم نگر چھوڑ دیں
شہریاروں سے ڈر جائیں ہم حق پرستی سے توبہ کریں
اپنے اندر بھی اک آدمی ہے اسے ہم کدھر چھوڑ دیں
ہم نے دیکھا ہے دریاؤں کا رخ کنورؔ شہر کی سمت ہے
شہر والے اگر بے خبر ہیں تو کیا بے خبر چھوڑ دیں
غزل
اپنی خواہش میں جو بس گئے ہیں وہ دیوار و در چھوڑ دیں
کنور اعجاز راجا