کچھ غزلیں ان زلفوں پر ہیں کچھ غزلیں ان آنکھوں پر
جانے والے دوست کی اب اک یہی نشانی باقی ہے
کمار پاشی
کیوں لوگوں سے مہر و وفا کی آس لگائے بیٹھے ہو
جھوٹ کے اس مکروہ نگر میں لوگوں کا کردار کہاں
کمار پاشی
مری دہلیز پر چپکے سے پاشیؔ
یہ کس نے رکھ دی میری لاش لا کر
کمار پاشی
نئی نئی آوازیں ابھریں پاشیؔ اور پھر ڈوب گئیں
شہر سخن میں لیکن اک آواز پرانی باقی ہے
کمار پاشی
اوڑھ لیا ہے میں نے لبادا شیشے کا
اب مجھ کو کسی پتھر سے ٹکرانے دو
کمار پاشی
تیری یاد کا ہر منظر پس منظر لکھتا رہتا ہوں
دل کو ورق بناتا ہوں اور شب بھر لکھتا رہتا ہوں
کمار پاشی
آدمی ہونا خدا ہونے سے بہتر کام ہے
خود ہی خود کے خواب کی تعبیر بن کر دیکھ لے
کمار وشواس

