یار تنہا گھر میں ہے افسوس لیکن ہم نہیں
حور تو ہے گلشن فردوس میں آدم نہیں
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
یہ دل بد گماں نہ دیکھ سکے
اگر اس بت کے ہو خدا ہم راہ
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
زمیں بھی نکلی جاتی ہے مری پاؤں کے نیچے سے
مجھے مشکل ہوا ہے ساتھ دینا اپنے منزل کا
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
زر دیا زور دیا مال دیا گنج دیے
اے فلک کون سے راحت کے عوض رنج دیے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
آئینے میں اور آب رواں میں تھا ترا عکس
شاید کہ مرا دیدۂ تر تیری طرف تھا
خواجہ رضی حیدر
گزری جو رہ گزر میں اسے درگزر کیا
اور پھر یہ تذکرہ کبھی جا کر نہ گھر کیا
خواجہ رضی حیدر
کب تک اے باد صبا تجھ سے توقع رکھوں
دل تمنا کا شجر ہے تو ہرا ہو بھی چکا
خواجہ رضی حیدر

