EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یار تنہا گھر میں ہے افسوس لیکن ہم نہیں
حور تو ہے گلشن فردوس میں آدم نہیں

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




یہ دل بد گماں نہ دیکھ سکے
اگر اس بت کے ہو خدا ہم راہ

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




زمیں بھی نکلی جاتی ہے مری پاؤں کے نیچے سے
مجھے مشکل ہوا ہے ساتھ دینا اپنے منزل کا

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




زر دیا زور دیا مال دیا گنج دیے
اے فلک کون سے راحت کے عوض رنج دیے

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




آئینے میں اور آب رواں میں تھا ترا عکس
شاید کہ مرا دیدۂ تر تیری طرف تھا

خواجہ رضی حیدر




گزری جو رہ گزر میں اسے درگزر کیا
اور پھر یہ تذکرہ کبھی جا کر نہ گھر کیا

خواجہ رضی حیدر




کب تک اے باد صبا تجھ سے توقع رکھوں
دل تمنا کا شجر ہے تو ہرا ہو بھی چکا

خواجہ رضی حیدر