EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

پھر وہی ہم تھے وہی تم تھے محبت تھے وہی
صلح کر لیتے اگر آنکھیں لڑانے کے لیے

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




پھول جب جھڑنے لگے رنگیں بیانی سے مری
رہ گئی حیرت سے بلبل کھول کر منقار کو

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




رہے یاں گردش اور جامہ دری
کاش لاتے نہ دست و پا ہم راہ

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




ساقی کے آنے کی یہ تمنا ہے بزم میں
دست سبو بلند ہے دست دعا کے ساتھ

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




ساقیا ہجر میں کب ہے ہوس گفت و شنید
ساغر گوش سے مینائے زباں دور رہے

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




سب منجم کہتے ہیں اب ہے برابر رات دن
سر سے پا تک دیکھ کر زلف دراز یار کو

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




سختیٔ ایام دوڑے آتی ہے پتھر لیے
کیا مرا نخل تمنا بارور ہونے لگا

خواجہ محمد وزیر لکھنوی