پھر وہی ہم تھے وہی تم تھے محبت تھے وہی
صلح کر لیتے اگر آنکھیں لڑانے کے لیے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
پھول جب جھڑنے لگے رنگیں بیانی سے مری
رہ گئی حیرت سے بلبل کھول کر منقار کو
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
رہے یاں گردش اور جامہ دری
کاش لاتے نہ دست و پا ہم راہ
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
ساقی کے آنے کی یہ تمنا ہے بزم میں
دست سبو بلند ہے دست دعا کے ساتھ
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
ساقیا ہجر میں کب ہے ہوس گفت و شنید
ساغر گوش سے مینائے زباں دور رہے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
سب منجم کہتے ہیں اب ہے برابر رات دن
سر سے پا تک دیکھ کر زلف دراز یار کو
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
سختیٔ ایام دوڑے آتی ہے پتھر لیے
کیا مرا نخل تمنا بارور ہونے لگا
خواجہ محمد وزیر لکھنوی

