EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تم جو کچھ کہتے زبان تیغ سے
میں دہان زخم سے دیتا جواب

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




ان آنکھوں میں صانع نے بھرے کوٹ کے موتی
قسمت یہ ہماری ہے کہ اشکوں سے بھری آنکھ

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




اس بت کافر کا زاہد نے بھی نام ایسا جپا
دانۂ تسبیح ہر اک رام دانا ہو گیا

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




وصل کی رات ہے بگڑو نہ برابر تو رہے
پھٹ گیا میرا گریبان تمہارا دامن

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




وہ مجھ پہ مرنے لگے جو ہے میرے درپئے قتل
الٰہی اس کے سو اور انتقال نہیں

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




وہ زخم لگا ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
درکار ہوا مرہم نایاب کا پھاہا

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




یاد مژگاں میں مری آنکھ لگی جاتی ہے
لوگ سچ کہتے ہیں سولی پہ بھی نیند آتی ہے

خواجہ محمد وزیر لکھنوی