تم جو کچھ کہتے زبان تیغ سے
میں دہان زخم سے دیتا جواب
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
ان آنکھوں میں صانع نے بھرے کوٹ کے موتی
قسمت یہ ہماری ہے کہ اشکوں سے بھری آنکھ
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
اس بت کافر کا زاہد نے بھی نام ایسا جپا
دانۂ تسبیح ہر اک رام دانا ہو گیا
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
وصل کی رات ہے بگڑو نہ برابر تو رہے
پھٹ گیا میرا گریبان تمہارا دامن
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
وہ مجھ پہ مرنے لگے جو ہے میرے درپئے قتل
الٰہی اس کے سو اور انتقال نہیں
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
وہ زخم لگا ہے کہ دکھائی نہیں دیتا
درکار ہوا مرہم نایاب کا پھاہا
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
یاد مژگاں میں مری آنکھ لگی جاتی ہے
لوگ سچ کہتے ہیں سولی پہ بھی نیند آتی ہے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی

