رستہ بھی تری سمت تھا گھر تیری طرف تھا
اب جا کے کھلا میرا سفر تیری طرف تھا
آنگن تھا مرا اور نہ در و بام تھے میرے
میں دھوپ میں تھا سایۂ در تیری طرف تھا
محفل تجھے بس چھوڑ کے جانے کے لیے تھی
اک میں ہی فقط خاک بسر تیری طرف تھا
عجلت میں نہ کر ترک تعلق کی شکایت
دل تیری طرف یاد تو کر تیری طرف تھا
آئینے میں اور آب رواں میں تھا ترا عکس
شاید کہ مرا دیدۂ تر تیری طرف تھا
تو موسم گل میں بھی گریزاں رہا مجھ سے
میں شاخ بریدہ تھا مگر تیری طرف تھا
میں تیرے حوالے سے رہا شہر میں معتوب
جو میرا ہنر تھا وہ ہنر تیری طرف تھا
غزل
رستہ بھی تری سمت تھا گھر تیری طرف تھا
خواجہ رضی حیدر