سر آنکھوں سے کریں سجدہ جدھر ابرو ہلائے وہ
جدا کچھ کفر اور اسلام سے مذہب ہمارا ہے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
سر جھکائے رہا سدا گردوں
کیا کیا تھا جو شرمسار رہا
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
سر مرا کاٹ کے پچھتائیے گا
کس کی پھر جھوٹی قسم کھائیے گا
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
سلسلہ رکھتا ہے میرا کفر کچھ اسلام سے
ہیں کئی تسبیح کے دانے مری زنار میں
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
سوجھی ہے الٹی دشت نوردی میں اے جنوں
پاؤں میں آبلہ کی طرح سے کلاہ ہو
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشق دلگیر کو
کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
ترے کوچے کی شاید راہ بھولی
صبا پھرتی ہے مضطر کو بہ کو آج
خواجہ محمد وزیر لکھنوی

