کسی بزرگ کے بوسے کی اک نشانی ہے
ہمارے ماتھے پہ تھوڑی سی روشنی ہے نا
احمد عطا
کسی کو خواب میں اکثر پکارتے ہیں ہم
عطاؔ اسی لیے سوتے میں ہونٹ ہلتے ہیں
احمد عطا
کوئی ایسا تو ترے بعد نہیں رہنا تھا
حالت ہجر کو افتاد نہیں رہنا تھا
احمد عطا
کوئی گماں ہوں کوئی یقیں ہوں کہ میں نہیں ہوں
میں ڈھونڈھتا ہوں کہ میں کہیں ہوں کہ میں نہیں ہوں
احمد عطا
کیا ہوئے لوگ پرانے جنہیں دیکھا بھی نہیں
اے زمانے ہمیں تاخیر ہوئی آنے میں
احمد عطا
لوگ ہنستے ہیں ہمیں دیکھ کے تنہا تنہا
آؤ بیٹھیں کہیں اور ان پہ ہنسیں ہم اور تم
احمد عطا
میں تیری روح میں اترا ہوا ملوں گا تجھے
اور اس طرح کہ تجھے کچھ خبر نہیں ہونی
احمد عطا