تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں
افضل خان
تو مجھے تنگ نہ کر اے دل آوارہ مزاج
تجھ کو اس شہر میں لانا ہی نہیں چاہیے تھا
افضل خان
تو روز جس کے تجسس میں آ رہا ہے یہاں
ہزار بار بتایا ہے وہ نہیں ہوں میں
افضل خان
یہ بھی خود کو حوصلہ دینے کا حیلہ ہے کہ میں
انگلیوں سے لکھ رہا ہوں چار سو لا تقنطو
افضل خان
یہ جو کچھ لوگ خیالوں میں رہا کرتے ہیں
ان کا گھر بار بھی ہوتا ہے نہیں بھی ہوتا
افضل خان
یہ کہہ دیا ہے مرے آنسوؤں نے تنگ آ کر
ہمیں بوقت ضرورت نکالئے صاحب
افضل خان
یہ محبت کے محل تعمیر کرنا چھوڑ دے
میں بھی شہزادہ نہیں ہوں تو بھی شہزادی نہیں
افضل خان