EN हिंदी
آدمی خوار بھی ہوتا ہے نہیں بھی ہوتا | شیح شیری
aadmi KHwar bhi hota hai nahin bhi hota

غزل

آدمی خوار بھی ہوتا ہے نہیں بھی ہوتا

افضل خان

;

آدمی خوار بھی ہوتا ہے نہیں بھی ہوتا
عشق آزار بھی ہوتا ہے نہیں بھی ہوتا

یہ جو کچھ لوگ خیالوں میں رہا کرتے ہیں
ان کا گھر بار بھی ہوتا ہے نہیں بھی ہوتا

زندگی سہل پسندی میں بسر کر لینا
کار دشوار بھی ہوتا ہے نہیں بھی ہوتا

کار دنیا ہی کچھ ایسا ہے کہ دل سے ترا درد
سلسلہ وار بھی ہوتا ہے نہیں بھی ہوتا

شادی و مرگ نے یہ نکتہ بتایا ہے کہ وقت
تیز رفتار بھی ہوتا ہے نہیں بھی ہوتا

افضلؔ اور قیس نے قانون بنایا ہے کہ عشق
دوسری بار بھی ہوتا ہے نہیں بھی ہوتا