EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

چھوڑ کر مجھ کو ترے صحن میں جا بیٹھا ہے
پڑ گئی جیسے ترے سایۂ دیوار میں جان

افضل خان




دالان میں سبزہ ہے نہ تالاب میں پانی
کیوں کوئی پرندہ مری دیوار پہ اترے

افضل خان




ڈبو رہا ہے مجھے ڈوبنے کا خوف اب تک
بھنور کے بیچ ہوں دریا کے پار ہوتے ہوئے

افضل خان




ہمارا دل ذرا اکتا گیا تھا گھر میں رہ رہ کر
یونہی بازار آئے ہیں خریداری نہیں کرنی

افضل خان




ہمارے سانس بھی لے کر نہ بچ سکے افضل
یہ خاکدان میں دم توڑتے ہوئے سگریٹ

افضل خان




اک وڈیرہ کچھ مویشی لے کے بیٹھا ہے یہاں
گاؤں کی جتنی بھی آبادی ہے آبادی نہیں

افضل خان




اسی لیے ہمیں احساس جرم ہے شاید
ابھی ہماری محبت نئی نئی ہے نا

افضل خان