EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا

آنس معین




ہماری مسکراہٹ پر نہ جانا
دیا تو قبر پر بھی جل رہا ہے

آنس معین




ہزاروں قمقموں سے جگمگاتا ہے یہ گھر لیکن
جو من میں جھانک کے دیکھوں تو اب بھی روشنی کم ہے

آنس معین




اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں
کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور

آنس معین




کب بار تبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا
یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور

آنس معین




کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار
اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور

آنس معین




میں اپنی ذات کی تنہائی میں مقید تھا
پھر اس چٹان میں اک پھول نے شگاف کیا

آنس معین