EN हिंदी
کل اپنے شہر کی بس میں سوار ہوتے ہوئے | شیح شیری
kal apne shahr ki bas mein sawar hote hue

غزل

کل اپنے شہر کی بس میں سوار ہوتے ہوئے

افضل خان

;

کل اپنے شہر کی بس میں سوار ہوتے ہوئے
وہ دیکھتا تھا مجھے اشک بار ہوتے ہوئے

پرندے آئے تو گنبد پہ بیٹھ جائیں گے
نہیں شجر کی ضرورت مزار ہوتے ہوئے

ہے ایک اور بھی صورت رضا و کفر کے بیچ
کہ شک بھی دل میں رہے اعتبار ہوتے ہوئے

مرے وجود سے دھاگا نکل گیا ہے دوست
میں بے شمار ہوا ہوں شمار ہوتے ہوئے

ڈبو رہا ہے مجھے ڈوبنے کا خوف اب تک
بھنور کے بیچ ہوں دریا کے پار ہوتے ہوئے

وہ قید خانہ غنیمت تھا مجھ سے بے گھر کو
یہ ذہن ہی میں نہ آیا فرار ہوتے ہوئے