شکست زندگی ویسے بھی موت ہی ہے نا
تو سچ بتا یہ ملاقات آخری ہے نا
کہا نہیں تھا مرا جسم اور بھر یا رب
سو اب یہ خاک ترے پاس بچ گئی ہے نا
تو میرے حال سے انجان کب ہے اے دنیا
جو بات کہہ نہیں پایا سمجھ رہی ہے نا
اسی لیے ہمیں احساس جرم ہے شاید
ابھی ہماری محبت نئی نئی ہے نا
یہ کور چشم اجالوں سے عشق کرتے ہیں
جو گھر جلا کے بھی کہتے ہیں روشنی ہے نا
میں خود بھی یار تجھے بھولنے کے حق میں ہوں
مگر جو بیچ میں کم بخت شاعری ہے نا
میں جان بوجھ کے آیا تھا تیغ اور ترے بیچ
میاں نبھانی تو پڑتی ہے دوستی ہے نا
غزل
شکست زندگی ویسے بھی موت ہی ہے نا
افضل خان