EN हिंदी
کیا ہے کہ آج چلتے ہو کترا کے راہ سے | شیح شیری
kya hai ki aaj chalte ho katra ke rah se

غزل

کیا ہے کہ آج چلتے ہو کترا کے راہ سے

وحشتؔ رضا علی کلکتوی

;

کیا ہے کہ آج چلتے ہو کترا کے راہ سے
دیکھو ادھر نگاہ ملا کر نگاہ سے

شرم جفا سے چھپتے ہو تم دادخواہ سے
عذر گنہ تمہارا ہے بدتر گناہ سے

ان کی حیا و شرم نے رکھی ہے دل کی شرم
کیا ہوگا جب نگاہ ملے گی نگاہ سے

انصاف بھی یہی ہے یہی شان حسن بھی
ہاں ہاں نظر چراؤ قتیل نگاہ سے

بیت الصنم سے دور نہیں ہے حرم کی راہ
کیوں راہ پوچھیں زاہد گم کردہ راہ سے

کیوں شکوہ ہم کریں عدم التفات کا
وہ پوچھتے تو ہیں نگہ گاہ گاہ سے

زاہد ہزار حیف کہ پہنچا نہ کوئی فیض
رندوں کے مے کدے کو تری خانقاہ سے

پروانوں کا ہجوم ہے شمع جمال پر
جیتا پھرے گا کون تری جلوہ گاہ سے

شکوہ کروں تمہاری جفا کا تو رو سیاہ
دیکھو نہ تم مجھے نگہ عذر خواہ سے

خوشحالئ رقیب سے وہ شاد شاد ہیں
یعنی ہیں بے خبر مرے حال تباہ سے

گردن جھکی ہوئی ہے اٹھاتے نہیں ہیں سر
ڈر ہے انہیں نگاہ لڑے گی نگاہ سے

نکلا نہ کوئی حیف یہاں قابل شکار
صیاد خالی ہاتھ پھرا صید گاہ سے

ہر چند وحشتؔ اپنی غزل تھی گری ہوئی
محفل سخن کی گونج اٹھی واہ واہ سے