EN हिंदी
دیکھنا وہ گریۂ حسرت مآل آ ہی گیا | شیح شیری
dekhna wo girya-e-hasrat-maal aa hi gaya

غزل

دیکھنا وہ گریۂ حسرت مآل آ ہی گیا

وحشتؔ رضا علی کلکتوی

;

دیکھنا وہ گریۂ حسرت مآل آ ہی گیا
بیکسی میں کوئی تو پرسان حال آ ہی گیا

جرأت عرض تمنا کا سبب وہ خود ہوئے
مہرباں دیکھا انہیں لب پر سوال آ ہی گیا

دل کو ہم کب تک بچائے رکھتے ہر آسیب سے
ٹھیس آخر لگ گئی شیشے میں بال آ ہی گیا

بے وفائی سے وفا کا دیتے وہ کب تک جواب
دل ہی تو ہے رفتہ رفتہ انفعال آ ہی گیا

خود فراموشی کی لذت نامکمل رہ گئی
باوجود بے خودی تیرا خیال آ ہی گیا

ایک مدت سے نہیں ملتا تھا وحشتؔ کا پتا
لے ترے کوچے میں وہ آشفتہ حال آ ہی گیا