دیکھنا وہ گریۂ حسرت مآل آ ہی گیا
بیکسی میں کوئی تو پرسان حال آ ہی گیا
جرأت عرض تمنا کا سبب وہ خود ہوئے
مہرباں دیکھا انہیں لب پر سوال آ ہی گیا
دل کو ہم کب تک بچائے رکھتے ہر آسیب سے
ٹھیس آخر لگ گئی شیشے میں بال آ ہی گیا
بے وفائی سے وفا کا دیتے وہ کب تک جواب
دل ہی تو ہے رفتہ رفتہ انفعال آ ہی گیا
خود فراموشی کی لذت نامکمل رہ گئی
باوجود بے خودی تیرا خیال آ ہی گیا
ایک مدت سے نہیں ملتا تھا وحشتؔ کا پتا
لے ترے کوچے میں وہ آشفتہ حال آ ہی گیا
غزل
دیکھنا وہ گریۂ حسرت مآل آ ہی گیا
وحشتؔ رضا علی کلکتوی