جھوٹ پر اس کے بھروسا کر لیا
دھوپ اتنی تھی کہ سایا کر لیا
اب ہماری مشکلیں کچھ کم ہوئیں
دشمنوں نے ایک چہرا کر لیا
ہاتھ کیا آیا سجا کر محفلیں
اور بھی خود کو اکیلا کر لیا
ہارنے کا حوصلہ تو تھا نہیں
جیت میں دشمن کی حصہ کر لیا
منزلوں پر ہم ملیں یہ طے ہوا
واپسی میں ساتھ پکا کر لیا
ساری دنیا سے لڑے جس کے لیے
ایک دن اس سے بھی جھگڑا کر لیا
قرب کا اس کے اٹھا کر فائدہ
ہجر کا ساماں اکٹھا کر لیا
گفتگو سے حل تو کچھ نکلا نہیں
رنجشوں کو اور تازہ کر لیا
مول تھا ہر چیز کا بازار میں
ہم نے تنہائی کا سودا کر لیا
غزل
جھوٹ پر اس کے بھروسا کر لیا
شارق کیفی