وہ جن کے نقش قدم دیکھنے میں آتے ہیں
اب ایسے لوگ تو کم دیکھنے میں آتے ہیں
کہیں نہیں ہے منارہ نہ منبر و محراب
محل سرا سے حرم دیکھنے میں آتے ہیں
طواف کوئے سخن ختم ہی نہیں ہوتا
کوئی نہیں ہے تو ہم دیکھنے میں آتے ہیں
اٹے ہوئے ہیں غبار شکستگی میں سلیمؔ
جو آئینے پس غم دیکھنے میں آتے ہیں
غزل
وہ جن کے نقش قدم دیکھنے میں آتے ہیں
سلیم کوثر